0
غزل
کہاں آ کے رکنے تھے راستے،کہاں موڑ تھا، اسے بھول جا
وہ جو مل گیا، اسے یاد رکھ، جو نہیں ملا، اسے بھول جا
وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دلِ بے خبر میری بات سن، اسے بھول جا، اسے بھول جا
میں تو گم تھا تیرے ھی دھیان میں، تیری آس، تیرے گمان میں
صبا کہہ گئی میرے کان میں،مرے پاس آ، اسے بھول جا
کسی آنکھ میں نھیں اشکِ غم، تیرے بعد کچھ بھی نہیں ھے کم
تجھے زندگی نے بھلا دیا، تو بھی مسکرا، اسے بھول جا
نہ وھ آنکھ ہی تری آنکھ تھی، نہ وہ خواب ھی ترا خواب تھا
دلِ منتظر تو یہ کس لئے ترا جاگنا، اسے بھول جا
یہ جو رات دن کا ھے کھیل سا، اسے دیکھ، اس پر یقیں نہ کر
نہیں عکس کوئی بھی مستقل سرِ آئنہ، اسے بھول جا
جو بساطِ جاں ھی ُالٹ گیا، وہ جو راستے میں پلٹ گیا
اسے روکنے سے حصول کیا، اسے مت بلا، اسے بھول جا
امجد اسلام امجد ۔
وہ جو مل گیا، اسے یاد رکھ، جو نہیں ملا، اسے بھول جا
وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دلِ بے خبر میری بات سن، اسے بھول جا، اسے بھول جا
میں تو گم تھا تیرے ھی دھیان میں، تیری آس، تیرے گمان میں
صبا کہہ گئی میرے کان میں،مرے پاس آ، اسے بھول جا
کسی آنکھ میں نھیں اشکِ غم، تیرے بعد کچھ بھی نہیں ھے کم
تجھے زندگی نے بھلا دیا، تو بھی مسکرا، اسے بھول جا
نہ وھ آنکھ ہی تری آنکھ تھی، نہ وہ خواب ھی ترا خواب تھا
دلِ منتظر تو یہ کس لئے ترا جاگنا، اسے بھول جا
یہ جو رات دن کا ھے کھیل سا، اسے دیکھ، اس پر یقیں نہ کر
نہیں عکس کوئی بھی مستقل سرِ آئنہ، اسے بھول جا
جو بساطِ جاں ھی ُالٹ گیا، وہ جو راستے میں پلٹ گیا
اسے روکنے سے حصول کیا، اسے مت بلا، اسے بھول جا
امجد اسلام امجد ۔
Nice poetry!
Post a Comment