10
In memory of Ahmed Faraz
Ahmed Faraz passed away on Aug 25th. May his soul rest in peace. Here is a ghazal and nazm by him that I've read and like.
سنا ھے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ھیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ھیں
سنا ھے ربط ھے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کرکے دیکھتے ھیں
سنا ھے درد کی گاہک ھے چشم ِ ناز اس کی
سو ھم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ھیں
سنا ھے اس کو بھی ھے شعر و شاعری سے شغف
سو ھم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ھیں
سنا ھے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ھیں
یہ بات ھے تو چلو بات کرکے دیکھتے ھیں
سنا ھے رات اسے چاند تکتا رہتا ھے
ستارے بام ِ فلک سے اتر کے دیکھتے ھیں
سنا ھے حشر ھیں اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ھے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ھیں
سناھے دن کواسے تتلیاں ستاتی ھیں
سنا ھے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ھیں
سنا ھے رات سے بڑھ کر ھیں کاکلیں اس کی
سنا ھے رات کو سائے گزر کے دیکھتے ھیں
سنا ھے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ھے
سو اس کو سرمہ فروش آنکھ بھر کے
سنا ھے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ھیں
سو ھم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ھیں
سنا ھے آئینہ ِ تمثال ھے جبیں اس کی
جو سادہ دل ھیں بن سنور کے دیکھتے ھیں
سنا ھے جب سے حمائل ھیں اس کی گردن میں
مزاج اور ھی لعل و گوھر کے دیکھتے ھیں
سنا ھے چشم ِ تصور سے دشت امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ھیں
سنا ھے اس کے جسم کی تراش ایسی ھے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ھیں
وہ سرو قد ھے مگر بے گل ِ مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ھیں
بس اک نگاہ سے لٹتا ھے قافلہ دل کا
سو رہروانِ ِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ھیں
سنا ھے اس کے شبستاں سے متصل ھے بہشت
مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر دیکھتے ھیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ھیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ھیں
کہانیاں ھی صحیح، سب مبالغے ھی صحیح
اگر وہ خواب ھے، تعبیر کرکے دیکھتے ھیں
اب اس کے شہر میں ٹھریں کہ ُکوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ھیں
----------------------------------------------------------------
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ھیں
سنا ھے ربط ھے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کرکے دیکھتے ھیں
سنا ھے درد کی گاہک ھے چشم ِ ناز اس کی
سو ھم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ھیں
سنا ھے اس کو بھی ھے شعر و شاعری سے شغف
سو ھم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ھیں
سنا ھے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ھیں
یہ بات ھے تو چلو بات کرکے دیکھتے ھیں
سنا ھے رات اسے چاند تکتا رہتا ھے
ستارے بام ِ فلک سے اتر کے دیکھتے ھیں
سنا ھے حشر ھیں اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ھے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ھیں
سناھے دن کواسے تتلیاں ستاتی ھیں
سنا ھے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ھیں
سنا ھے رات سے بڑھ کر ھیں کاکلیں اس کی
سنا ھے رات کو سائے گزر کے دیکھتے ھیں
سنا ھے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ھے
سو اس کو سرمہ فروش آنکھ بھر کے
سنا ھے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ھیں
سو ھم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ھیں
سنا ھے آئینہ ِ تمثال ھے جبیں اس کی
جو سادہ دل ھیں بن سنور کے دیکھتے ھیں
سنا ھے جب سے حمائل ھیں اس کی گردن میں
مزاج اور ھی لعل و گوھر کے دیکھتے ھیں
سنا ھے چشم ِ تصور سے دشت امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ھیں
سنا ھے اس کے جسم کی تراش ایسی ھے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ھیں
وہ سرو قد ھے مگر بے گل ِ مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ھیں
بس اک نگاہ سے لٹتا ھے قافلہ دل کا
سو رہروانِ ِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ھیں
سنا ھے اس کے شبستاں سے متصل ھے بہشت
مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر دیکھتے ھیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ھیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ھیں
کہانیاں ھی صحیح، سب مبالغے ھی صحیح
اگر وہ خواب ھے، تعبیر کرکے دیکھتے ھیں
اب اس کے شہر میں ٹھریں کہ ُکوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ھیں
----------------------------------------------------------------
And this nazm "Bhali si aik shakal thi"
----------------------------------------------------------------
بھلے دنوں کی بات ھے
بھلی سی ایک شکل تھی
نہ یہ کہ حسنِ ِتام ھو
نہ دیکھنے میں عام سی
نہ یہ کہ وہ چلے تو
کہکشاں سی رہگزر لگے
مگر وہ ساتھ ھو تو پھر
بھلا بھلا سفر لگے
کوئی بھی ُرت ھو اس کی چھب
فضا کا رنگ روپ تھی
وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی
وہ سردیوں کی دھوپ تھی
نہ مدتوں جدا رھے
نہ ساتھ صبح و شام ھو
نہ رشتہ ِ وفا پہ ضد
نہ یہ کہ اذن ِ عام ھو
نہ ایسی خوش لباسیاں
کہ سادگی ِگلا کرے
نہ اتنی بے تکلّفی
کہ آئینہ حیا کرے
نہ اختلاط میں وہ رم
کہ بدمزہ ھوں خواہشیں
نہ اس قدر سپردگی
کہ زچ کریں نوازشیں
نہ عاشقی جنون کی
کہ زندگی عذاب ھو
نہ اس قدر کٹھور پن
کہ دوستی خراب ھو
کبھی تو بات بھی خفی
کبھی سکوت بھی سخن
کبھی تو کشتِ زعفراں
کبھی اداسیوں کا بن
سنا ھے ایک عمر ھے
معاملات ِ دل کی بھی
وصال ِ جاں فضا تو کیا
فراق ِ جانگسل کی بھی
سو ایک روز کیا ھوا
وفا پہ بحث چِھڑ گئی
میں عشق کو امر کہوں
وہ میری ضد سے چڑ گئی
میں عشق کا اسیر تھا
وہ عشق کو قفس کہے
کہ عمر بھر کے ساتھ کو
وہ بد تر از ہوس کہے
“شجر حجر نہیں کہ ھم
ھمیش پہ بہ ُگل رہیں
نہ ڈھور ھیں کہ رسیاں
گلے میں مستقل رھیں
محبتوں کی وسعتیں
ھمارے دست و پا میں ھیں
بس ایک در سے نسبتیں
سگان ِ بے وفا میں ھیں
میں کوئی پینٹنگ نہیں
کہ اک فریم میں رھوں
وھی جو من کا ِمیت ھو
اسی کے پریم میں رھوں
تمھاری سوچ جو بھی ھو
میں اس مزاج کی نہیں
مجھے وفا سے َبیر ھے
یہ بات آج کی نہیں“
نہ اس کو مجھ پہ مان تھا
نہ مجھ کو اس پہ زعم ھی
جو عہد ھی کوئی نہ ھو
تو کیا غم ِشکستگی
سو اپنا اپنا راستہ
ھنسی خوشی بدل لیا
وہ اپنی راہ چل پڑی
میں اپنی راہ چل دیا
بھلی سی ایک شکل تھی
بھلی سی اس کی دوستی
اب اس کی یاد رات دن
نہیں، مگر کبھی کبھی
Cheerio folks
بھلے دنوں کی بات ھے
بھلی سی ایک شکل تھی
نہ یہ کہ حسنِ ِتام ھو
نہ دیکھنے میں عام سی
نہ یہ کہ وہ چلے تو
کہکشاں سی رہگزر لگے
مگر وہ ساتھ ھو تو پھر
بھلا بھلا سفر لگے
کوئی بھی ُرت ھو اس کی چھب
فضا کا رنگ روپ تھی
وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی
وہ سردیوں کی دھوپ تھی
نہ مدتوں جدا رھے
نہ ساتھ صبح و شام ھو
نہ رشتہ ِ وفا پہ ضد
نہ یہ کہ اذن ِ عام ھو
نہ ایسی خوش لباسیاں
کہ سادگی ِگلا کرے
نہ اتنی بے تکلّفی
کہ آئینہ حیا کرے
نہ اختلاط میں وہ رم
کہ بدمزہ ھوں خواہشیں
نہ اس قدر سپردگی
کہ زچ کریں نوازشیں
نہ عاشقی جنون کی
کہ زندگی عذاب ھو
نہ اس قدر کٹھور پن
کہ دوستی خراب ھو
کبھی تو بات بھی خفی
کبھی سکوت بھی سخن
کبھی تو کشتِ زعفراں
کبھی اداسیوں کا بن
سنا ھے ایک عمر ھے
معاملات ِ دل کی بھی
وصال ِ جاں فضا تو کیا
فراق ِ جانگسل کی بھی
سو ایک روز کیا ھوا
وفا پہ بحث چِھڑ گئی
میں عشق کو امر کہوں
وہ میری ضد سے چڑ گئی
میں عشق کا اسیر تھا
وہ عشق کو قفس کہے
کہ عمر بھر کے ساتھ کو
وہ بد تر از ہوس کہے
“شجر حجر نہیں کہ ھم
ھمیش پہ بہ ُگل رہیں
نہ ڈھور ھیں کہ رسیاں
گلے میں مستقل رھیں
محبتوں کی وسعتیں
ھمارے دست و پا میں ھیں
بس ایک در سے نسبتیں
سگان ِ بے وفا میں ھیں
میں کوئی پینٹنگ نہیں
کہ اک فریم میں رھوں
وھی جو من کا ِمیت ھو
اسی کے پریم میں رھوں
تمھاری سوچ جو بھی ھو
میں اس مزاج کی نہیں
مجھے وفا سے َبیر ھے
یہ بات آج کی نہیں“
نہ اس کو مجھ پہ مان تھا
نہ مجھ کو اس پہ زعم ھی
جو عہد ھی کوئی نہ ھو
تو کیا غم ِشکستگی
سو اپنا اپنا راستہ
ھنسی خوشی بدل لیا
وہ اپنی راہ چل پڑی
میں اپنی راہ چل دیا
بھلی سی ایک شکل تھی
بھلی سی اس کی دوستی
اب اس کی یاد رات دن
نہیں، مگر کبھی کبھی
Cheerio folks