کچھ سگریٹ کے بارے میں
ایک دن سانس لینا دو پیکٹ سگریٹ پینے کے برابر ھوگا حالانکہ اس سے اچھی خبر اور کیا ھوگی کہ ھم مفت میں روزانہ دو ڈبی سگریٹ پیتے ھیں۔ مجھے تو گاؤں کی صاف ھواؤں میں رھنے والے لوگوں سے بڑی ھمدردی ھے جو اس نعمت سے محروم ھیں۔ بس اگر کوئی ڈر ھے تو وہ یہ ھے کہ کہیں حکومت بڑے شہروں میں سانس لینے پر ٹیکس نہ لگا دے۔ اب تو ھم گھر سے نکلتے ھوئے یہ بتلا کے جاتے ھیں کہ دو کش انارکلی کے لگانے جا رھا ھوں۔ یہی نہیں کوئی پوچھے گا کہ آپ کو لاھور آئے کتنی دیر ھوئی؟ تو دوسرا جواب دے گا “آدھی ڈبی ھو گئی، ایک ڈبی کا قیام کروں گا“۔
سگریٹ پینے سے جو مالی نقصان ھوتا تھا، وہ بھی نہ ھو گا۔ میرے ایک جاننے والے
نے سگریٹ نوشی سے پیسے بچانے کا یہ طریقہ نکالا تھا کہ وہ ھمیشہ سگریٹ سے سگریٹ سلگاتا، یوں ماچس کا خرچ بچتا۔ اس سے پہلے ایک سردار جی بھی ایسا کر چکے تھے کہ اس طرح ماچسوں پر رقم ضائع نہیں ھوتی کیونکہ سردار جی کو لائٹر جلانے کے لئے کئی ماچسیں جلانی پڑتی تھیں۔
انگریز ھم پر سگریٹ کے زور پر حکومت کر گئے کیونکہ پہلے حقہ تھا۔ سب لوگ اس کے گرد ھالہ بنا کر بیٹھتے اور ایک ھی حقہ یوں مل کر پیتے کہ لگتا یہ ایک ھی جسم کے مختلف منہ ھیں ۔ مگر انگریز نے انہیں سگریٹ تھما کر علیحدہ علیحدہ کر دیا ۔ سگریٹ بڑوں کی چوسنی ھے جسے وہ سمجھتے ھیں کہ ھم چوس رھے ھیں حالانکہ وہ انہیں چوس رھی ھوتی ھے ۔
Taken from Dr. Younus Butt's Afra Tafreeh.